خوبصورت وادیوں ، پُرفضاء مقامات، بہتے جھرنوں اور فلک بوس پہاڑوں کے درمیان عبداللہ کی گاڑی تیز رفتار سے بڑھی جا رہی تھی۔ دِل کی دھڑکوں کی رفتار شاید گاڑی کی رفتار سے زیادہ ہی تھی۔ عبداللہ آج بہت ایکسائیٹڈ تھا۔ اس کے ایک دوست نے اس کی ملاقات ایک شخص سے کروانے کا وعدہ کیا تھا اور وہ اسی شخص سے ملنے اس کے شہر جا رہا تھا۔ شہر کیا، پہاڑوں کے بیچ و بیچ ایک برفانی گاؤں تھا جس کی آبادی کل آٹھ سو نفوس پر مشتمل تھی۔ اور عبداللہ کا میزبان اس شہر کا بلاشرکت غیرے مطلق العنان مالک تھا۔
عبداللہ کو ایسے لوگوں سے ملنے کا بڑا شوق تھا جنہوں نے اپنی زندگی کسی ایک مقصد کے لئے گزار دی۔ صحیح یا غلط اس بات سے بحث نہیں۔ بس مقصد اتنا بڑا تھا کہ وہ زندگی کو کھا گیا اور بندہ اتنا پختہ مزاج اور صابرکہ جُتا رہا زندگی بھر اس کام میں۔
عبداللہ نے انگوروں کی بیلوں کے درمیان گاڑی روکی، یہ پوری وادی خالص شراب بنانے کے لئے صوبے بھر میں مشہور تھی۔ سامنے لان میں اس کی نظر ایک بیاسی سالہ بوڑھے پر پڑی جس کی گہری اداس آنکھیں کسی تلاش کا مژدہ سنا رہی تھیں جو اُسے شاید نہ مل سکی۔ چوڑی پیشانی ذہانت کا اظہار کر رہی تھی۔ بھرا ہوا کسرتی جسم اس بات کا صادق تھا کہ جوانی کس جوش و ولولے میں گزری ہو گی، بھرے ہوئے ہاتھ اچھی خوراک کا پتہ دیتے تھے۔ مہنگی پوشاک امارت کی چغلی کھا رہی تھی، نشست کے پیچھے کھڑے چاق و چوبند باڈی گارڈز اُس کی زندگی کی اہمیت کا تخمینہ لگانے کے لئے کافی تھے، تو بازو میں کھڑی خوبصورت حسینائیں رنگین مزاجی کا ثبوت تھیں۔
یہ شخص رابرٹ اتارینو تھا، امریکہ میں اطالوی مافیا کا بے تاج بادشاہ۔ اس کے ذمے بالواسطہ یا بلاواسطہ چھ سو افراد کا قتل تھا۔ پہلا قتل اس نے صرف گیارہ سال کی عمر میں کیا جب اس نے اپنے سے دگنی عمر کے آدمی کی گردن اپنے ہاتھوں سے مسل دی۔
عبداللہ نے اس کے جذبے اور لگن کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے مصافحہ کو ہاتھ بڑھائے، کام کتنا برا ہی کیوں نہ ہو، اس کے پیچھے کاربند لگن اور جذبہ تو سچا ہی ہوتا ہے۔ اس دنیا میں جہاں کتے بلیوں کے حقوق کا رونا روتے عمر گزر جایا کرتی ہے وہاں چھ سوافرااد کو ذبح کرکے آزاد گھومنے پھرنے والے نے کچھ تو ایسا کیا ہو گا جو عام فہم و اِدراک سے باہر ہے۔
رابرٹ کے لہجے میں بے نیازی کی کاٹ تھی اور الفاظ اتنے نپے تُلے کہ جیسے کچہری میں جج کے سامنے کٹہرے میں کھڑا ہو۔ عبداللہ نے وقت کی مناسبت سے خلوت میں آدھ گھنٹہ مانگا جو اسے مل گیا۔
عبداللہ نے سوالات کی ابتداء کی۔
کیا آپ خُدا پر یقین رکھتے ہیں؟
میں بڑا منافق ہوں اگر میں کہوں کہ ہاں یقین رکھتا ہوں، کیونکہ میری پوری زندگی اس بات کی گواہ ہے کہ میں خدا کو نہیں مانتا، اگر مانتا تو کیا وہ کرتا جو میں نے کیا۔
چلیں مجھے اس طرح کہہ لینے دیں کہ ہاں میں خدا پر یقین رکھتا ہوں مگر اس کے طریقوں پر نہیں۔ اس لئے بزنس اور دنیا چلانے کے معاملات میں نے اپنے ہاتھ میں لے لئے۔
کوئی شرمندگی، کوئی پچھتاوا، اگر موقع ملے تو کوئی زندگی کا ایسا موڑ یا فیصلہ جو آپ بدلنا چاہیں؟
کچھ نہیں۔ میں بالکل مطمئن ہوں۔ کوئی شرمندگی، کوئی پچھتاوا، کوئی خوف نہیں، کچھ نہیں بدلنا، میں ہمیشہ سے سچا قاتل رہا۔ سچائی کا قاتل نہیں۔ لوگ بے وقوف ہیں، ہم جیسوں کو بُرا بھلا کہتے ہیں اور ان کو نہیں جو سرِعام سچ کو قتل کر دیتے ہیں حالانکہ وہ اِس سے کہیں بُرا فعل ہے۔
کس چیز سے ڈرتے ہیں؟
کسی سے نہیں، جو آدمی اپنے آپ سے نہ ڈرے وہ بے خوف ہو جاتا ہے۔ آپ کا نفس، آپ کا ضمیر ہر وقت آپ کو اندیشوں اور خوف میں گھیرے رکھتا ہے۔ اپنی جان کی حفاظت کا راگ الاپتا ہے۔ آدمی ایک بار اپنے آپ سے جنگ جیت لے تو دنیا سے ہار نہیں سکتا۔
میں اپنے کیریئر کے مِڈ پوائنٹ پر ہوں، بہت پلاننگ کرتا ہوں آگے کی۔ کیا مشورہ دیں گے؟
پلاننگ اچھی چیز ہے، ضرور کرنی چاہئے۔ یہ آدمی کو فوکس کرنا سکھاتی ہے اور ایک اچھا مقلد
(Follower)
بناتی ہے۔ آدمی دنیا تِیاگ کر لکھی ہوئی چند لائنوں کے پیچھے زندگی گزار دیتا ہے۔ لکھے ہوئے پر چلنے والے اب نایاب ہوتے جا رہے ہیں مگر ایک بات یاد رکھنی چاہئے کہ خُدا کا بھی ایک اسکرپٹ ہوتا ہے اور جب اُس کا لکھا ہوا آپ کے لکھے سے متصادم ہو جائے تو اس کا لکھا چلتا ہے، جب حالات سازگار نہ رہیں، جب سب کچھ آپ کے لکھے سے اُلٹ ہو تو سمجھ جائیں کاپی بدل گئی ہے۔ ایسے میں فلوٹ کریں، اپنے آپ کو ڈھیلا چھوڑ دیں۔ انجوائے کریں اور اس کے لکھے پر راضی ہو کر اپنے کردار کو جانفشانی سے نبھائیں۔ اِس یقین کے ساتھ کہ اس کا اسکرپٹ آپ کے اسکرپٹ سے اچھا ہے۔ یہ کہتے ہوئے نجانے کیوں رابرٹ کی آنکھیں بھر آئیں اور مضبوط پختہ ہاتھوں پر رعشہ آ گیا۔
زندگی کا سب سے بڑا سبق ؟
سب سے بڑا سبق جو میں نے سیکھا وہ یہ ہے کہ ہر آدمی کا اپنا ایک اینگل ہوتا ہے سوچنے اور سمجھنے کا نظریہ۔ آپ کو پہلے وہ معلوم کرنا چاہئیے۔ اس کے بعد آپ اس کی کہی ہوئی باتوں اور کئے گئے اعمال کو ٹھیک سے سمجھ سکتے ہیں۔ اس سے فائدہ اُٹھا سکتے ہیں اور اس کے شر سے بچ سکتے ہیں۔
\
کیسے مافیا کی دنیا میں آئے اور کیونکر اِس سے باہر نِکل سکے؟
ایک ہی وجہ تھی، محبت۔ پیسے کی محبت اِس فیلڈ میں لے کر آئی مگر جب یہاں کے خُداؤں نے میری بیوی کی موت کے پروانے پر دستخط کردیئے تو اس کی محبت میں، میں سب سے ٹکرا گیا۔ مافیا دنیا کی سب سے زیادہ ایماندار اور کرپشن سے پاک آرگنائزیشن ہوتی ہے۔ بیوی بچوں کو ہم کچھ نہیں کہتے۔ جب اِس کے کرتا دھرتاؤں نے اپنے ہی اصول توڑ دیئے تو میں اکیلا سب سے ٹکرا گیا اور سب کو لے ڈوبا۔ محبت جیت گئی، دنیا ہار گئی۔
آخری سوال۔ اللہ کا سامنا ہوا تو کیا کہیں گے؟
تیری دنیا کو بُرے لوگوں سے پاک کرنے کا دھندہ کرتا رہا اور خوب کامیابی سے کیا۔
اگر میرا پلان تیرے پلان کے مطابق رہا تو انعام و اکرام کر۔
اگر وہ اِس سے متصادم رہا تو بخش دے۔ تُو جانتا ہے کہ میں نے ہمیشہ سچ کا ساتھ دیا۔
جب کبھی قانون اور سچ مدمقابل ہوئے تو میں سچ کی طرف تھا، بجائے اِس کے کہ میں لوگوں کا ساتھ دیتا اور تو مجھے پرکھتا، میں نے سچائی کا ساتھ دیا۔ دل کی گواہی مانی اور چھوڑ دیا دنیا پر کہ جیسے چاہے پرکھے۔ تو مالک ہے، تیری قدرت ہے، تیرے کام ہیں۔ جہاں جہاں حدود سے تجاوز کی وہاں اپنی رحمت سے حدود کی باؤنڈریز تبدیل کر دے۔ تو بخش دے تو کون پوچھے گا۔
یہ کہہ کر رابرٹ نے ہنستے ہوئے سگار کا کش لگایا اور عبداللہ کو اس کی روتی آنکھوں کے ساتھ چھوڑ کر اپنے گم نام مسکن کی طرف چل پڑا۔