’’بس جی!میں تو کوئی بڑا آدمی نہیں، بس لوگ خود بخود کھینچے چلے آتے ہیں۔‘‘ اندرون پنجاب کے ایک ’’بابا صاحب‘‘ نے اپنا تعارف کروایا۔
’’میں نے کوئی زیادہ نہیں مگر 12 حج اور 40 سے اوپر عمرے کر لئے ہیں۔‘‘ انہوں نے بات جاری رکھی۔ ’’میں تو جی غریب آدمی ہوں مگر ہر سال کوئی نہ کوئی مرید یا دوست زبردستی لے جاتا ہے کہ آپ ہوں گے تو برکت ہو گی۔‘‘
’’جی ہمارے حضرت کے 25ہزار سے زائد مرید ہیں، دنیا جہاں میں اور اس دور کے اقطاب میں سے ہیں۔ ‘‘پاس بیٹھے ہوئے مرید خاص نے لقمہ دیا۔
ہمارے ملک میں لوگوں کو دین کا ہیضہ ہو جاتا ہے۔ جب اس دنیا میں کوئی کارہائے نمایاں نہیں انجام دے پاتے تو اس دنیا کی اجارہ داری قائم کر لیتے ہیں۔ کسی کو جنت کے وعدے تو کسی کو گناہوں کی بخشش کے ٹوٹکے، کہیں چندے کے نام پر غریب عوام کولوٹنا تو کہیں اعتکاف کے نام پر سالانہ میلے، مذہب کے نام پر لوگوں کا استحصال یہیں سے شروع ہوتا ہے۔
میرے استاد کہتے ہیں کہ ’’اپنے بارے میں باتیں کرنا مکروہ ہے اور اپنے بارے میں باتیں سننا اس سے بھی زیادہ مکروہ ہے۔‘‘ جس شخص کو اپنی نیکیوں کے تذکرے پسند ہوں اور گناہوں پہ استغفار نہ کرے وہ متکبر ہوتا ہے۔
ایسے لوگوں سے بچنا چاہئے۔ اللہ کبھی بد نیت آدمی کو منزل پر نہیں پہنچاتا۔
اندر سے روح کینہ، بغض، جنس اور لالچ میں لتھڑی ہوئی ہو اور ظاہر میں ایسے پوز کرے کہ اس سے زیادہ عاجز اور دنیا سے بے پرواہ کوئی ہے ہی نہیں۔
میرے دوست طارق بلوچ صحرائی کہتے ہیں کہ ’’خدا جب کسی کو عاجز کرنا چاہے تو اس سے عاجزی چھین لیتے ہیں۔‘‘
اپنی خود ساختہ فضیلتوں اور مقامات کے وہم میں مخلوق خدا کو کم تر اور حقیر سمجھنا کوئی اچھی بات نہیں۔ آپ تو ایسے لوگوں کے پاس اس لئے جا رہے ہیں کہ وہ آپ کو اللہ سے جوڑیں، وہ آپ کے پاس آپ کا مقام، پیسہ یا شہرت دیکھ کر آتے ہیں، جو خود کٹا ہوا ہو وہ آپ کو کیسے جوڑے گا؟ کسی شخص کو اسکے رتبے یا مقام کو دیکھتے ہوئے اپنے سے قریب کرنا طریقت کا شرک ہے.
یاد رکھنے کی بات ہے کہ خدا کبھی اتنا تنزل نہیں کرتا کہ بندہ ہو جائے اور بندہ کبھی اتنا ترفع نہیں کرتا کہ خدا ٹھہرے۔ اللہ مالک ہے،بندے کو کیا نسبت۔
بندے کو سوچنا چاہئے کہ وہ تمام انسانی ضروریات کا پابند ہے، کھانا بھی کھاتا ہے، پانی بھی پیتا ہے، واش روم بھی جاتا ہے، وہاں بیٹھ کر سوچنا چاہئے کہ وہ کتنا بڑا ’’حضرت ‘‘ ہے۔ اپنی نیکیوں کے قصے، عبادتوں کا حساب اور صدقات کا شمار رکھنا اورگنوانا چھوڑ دیں۔ سب سے پہلے صحیح عقیدہ آتا ہے، پھر نیت، پھر عمل، پھر اخلاص اور آخر میں قبولیت، اللہ نے کچھ قبول نہ کیا تو کس کام کی یہ ساری محنت؟
کیا آپ کو پتہ ہے کہ وہ کون سا پتا ہے جو کسی کو نہیں دینا چاہئے؟ اپنی ذات کا۔
اپنی ذات کا ادّعا کہ میں ہوں، خود کبر ہے۔ مٹی اگردعوی کرے تو وہ مٹی تو نہ رہی۔ اپنے وجود کے وہم کو حقیقی وجود پہ قربان کر دینے کا نام بندگی ہے۔ اپنے آپ کو مٹا کر اللہ کی وحدت میں گم ہو جانے کو بندگی کہتے ہیں۔
آئیے! آج سچے دل سے اللہ کے حضور اپنی نیکیوں پر معافی مانگتے ہیں کہ کچھ نہیں پتہ کہ وہ اس کے لئے ہے یا اس سے بھی اپنا نفس ہی پھل پھول رہا تھا۔
اللہ ہمیں تقدس کے بھرم سے بچائے اور بندگی کا شرف بخشے۔ آمین!